Add To collaction

ایک دردناک کہانی


ایک دردناک کہانی




ہم لوگ دو گھنٹے ساتھ گزار کے ہوٹل سے باہر آ گٸے۔۔۔

سکندر نے مجھے یونیورسٹی چھوڑا اور چلا گیا

گناہ کا پچھتاوا الگ تھا لیکن سکندر کی قربت کا نشہ بھی الگ تھا۔۔

اب ہم ایک دوسرے کو واٸف ہسبنڈ  کہہ کر بلانے لگے  میں نے اپنی آٸی ڈی ماہم خان کے نام سے بناٸی ہوٸی تھی اب اُس پہ ماہم سکندر لکھ لیا۔۔۔

میرا لاسٹ سمسٹر تھا اور پیپرز کے بعد مجھے گھر آنا تھا اس لٸے جب سکندر کو بتایا کہ میں نے پیپرز  کے بعد گھر چلے جانا ہے۔۔۔۔۔

تو وہ ہر بات بہ بات مجھے ملنے کے لٸے مجبور کرنے لگا دل میرا بھی چاہتا تھا کہ ملوں سکندر سے۔۔۔

لیکن اب میں پہلے والی غلطی کرنے کے حق میں نہیں تھی اس لٸے میں نے رات کو جب سکندر کی کال آٸی تو اس سے صاف صاف بات کرنے کا سوچا۔۔

رات کو سکندر کی کال آٸی تو سب سے پہلی بات ہی اُس نے ملنے کی۔۔۔

دیکھیں سکندر میں آج بھی آپ کی ہوں کل بھی آپ کی رہوں گی میرا جسم آپ نے دیکھ لیا ہے۔۔
میرے ساتھ سیکس آپ نے کر لیا ہے اب کوٸی مانے یا نا مانے میں شادی صرف آپ سے کروں گی۔۔۔
لیکن میں بنا نکاح کے اب ایسے ملنے کے حق میں نہیں ایک بار غلطی کر لی زنا کر لیا اللہ وہ معاف کر دے اب اور نہیں۔۔

آپ نے اگر کورٹ میرج بھی کرنی ہے تو میں تیار ہوں لیکن ایسے نہیں ملنا اب میں نے۔
میں نے دو ٹوک الفاظ میں منع کر دیا۔۔

یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے سکندر نے غصے سے پوچھا 

ہاں یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نے بھی اُسی کے لہجے میں جواب دیا۔۔۔

تم اچھا نہیں کر رہی سدرہ جان یہ فیصلہ تمہیں مہنگا پڑے گا سکندر کا لہجہ اچانک بدل گیا۔۔
میں تو اچھا کرنے کا ہی سوچ رہی ہوں نکاح کرو پوری زندگی تمہاری ہوں جو مرضی کرنا۔۔۔
کورٹ میرج کا فیصلہ کر کےماں باپ کی عزت بھی خراب کر رہی ہوں صرف تمہاری محبت کے لٸے

ہاہاہاہاہاہا نکاح تم سے اچھا سوچتے ہیں تم پیپرز  سکون سے دو دیکھتے ہیں نکاح بھی ہاہاہاہا 
سکندر نے قہقہہ  لگاتے ہوٸے کال بند کر دی۔۔

سکندر کے اس قہقہے نے مجھ توڑ کے رکھ دیا دل گھبراہٹ سے پھٹا جا رہا تھا۔۔۔
لیکن پھر بھی اِتنا یقین تھا کہ سکندر  میری محبت ہے وہ  ایسا نہیں کر سکتا وہ کچھ بھی غلط نہیں کرے گا دل میں ایک انجانا خوف پیدا ہو رہا تھا۔۔۔

پھر دل کو تسلی دی کہ اُس کی ماں اور بہن بھی تو ہے اُن سے بات کروں گی وہ بھی تو عورتیں ہیں مجھے سمجھیں گی۔۔۔

جتنے دن پیپرز  ہوتے رہے سکندر بس شام کو دس منٹ کال کرتا اور پیپر کیسا ہوا ہے پوچھ کے بند کر دیتا۔۔

جس دن لاسٹ پیپر تھا اُس رات کو سکندر نے مجھے دو گھنٹے کی کال کی اور صبح ملنے کے لٸے فورس کرنے کی کوشش کی۔۔

دیکھو سدرہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور وعدہ بھی کیا ہے کہ تم سے نکاح بھی کروں گا۔۔۔
جب ہم نے یہ سب ایک بار کر لیا ہے تو دوسری بار کیوں  نہیں کر سکتے۔۔۔

سکندر مجھے آپ پے  شک نہیں ہے لیکن میرا دل نہیں کرتا اب بنا نکاح کے ایسا کروں پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔۔

پہلے والا گناہ بہت ستاتا ہے۔۔۔

دو گھنٹے وہ کوشش کرتا رہا کہ میں صبح ملنے کے لٸے راضی ہو جاٶں لیکن میں نہ مانی اور اُس نے غصے میں کال بند کر دی۔۔۔
میری رات روتے ہوٸے گزری اور اذان کے وقت آنکھ لگ گٸی۔۔

دس بجے میں اٹھی اور ابو کو کال کی کہ تین بجے آپ لینے آ جانا سوچا یہی تھا کہ سکندر سے بات کر کے اُسے منا کے جاٶں گی۔۔

سکندر کا نمبر ٹراٸی کیا تو آف تھا۔۔
پریشانی ہوٸی سوچا واٹس آپ پہ دیکھتی ہوں آن لاٸن ہے یا نہیں
لیپ ٹاپ آن کر کے جیسے ہی واٹس ایپ آن کیا سکندر کے دو میسج آ گٸے
سدرہ ڈیٸر بہت ہو گٸی محبت۔۔
ایک ویڈیو بھیج رہا ہوں دیکھ لینا۔۔
اور پورے  بارہ بجے یونیورسٹی کے گیٹ پہ آ جانا پک کر لوں گا صرف دو گھنٹے میرے ساتھ رہنا اس کے بعد واپس چھوڑ دوں گا۔۔
اور اگر نا آٸی تم مجھے ملنے تو یہ ویڈیو انٹرنیٹ پہ ڈال دوں گا اور اگر آگٸی تو ڈیلیٹ کر دوں گا۔۔۔

تب تک ویڈیو ڈاؤن لوڈ ہو چکی تھی جیسے ہی اوپن کی ویڈیودیکھ کے میرا دل اچھل کے حلق میں آ گیا۔۔۔

وہ میری اور سکندر کی ویڈیو تھی جس میں سکندر کے چہرے پہ تو کوٸی دھندلی سی چیز آ رہی تھی  لیکن میرا چہرہ اور جسم بلکل صاف نظر آ رہا  تھا ایک سیکنڈ سے بھی پہلے پتہ چل جاتا تھا میں ہوں ویڈیو اتنی صاف تھی۔۔۔

میری آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھےگبھراہٹ سے جسم کانپ رہا تھا  اگلے بیس منٹ میں سکندر کو کوٸی دو سو میسج میں نے کر دیٸے۔۔۔۔

جس میں اُسے اس کی ماں بہن قرآن اللہ رسول کا واسطہ دیا  کہ مجھ پہ یہ ظلم مت کرو۔۔
ویڈیو ڈیلیٹ کر دو

لیکن سکندر نے کوٸی جواب نہ دیا۔۔
اور جب آن لاٸن آیا تو اس نے ہنستے ہوٸے کال کر کے کہا کہ میں لینے آ رہا ہوں گیٹ پہ آ جاٶ ورنہ انجام کی تم خود ذمہ دار ہوگی۔۔
یہ کہہ  کر اُس نے کال کاٹ دی۔۔

میں نے کچھ دیر سوچا اور کانپتے ہوٸے جسم کے ساتھ لیپ ٹاپ بند کیا ویڈیو ڈیلیٹ کی اور عبایا پہن کے گیٹ کی طرف چل دی۔۔

گیٹ پہ انٹری کی اور باہر آ گٸ بیس منٹ بعد سکندر کی کال آ گٸی گڈ تم نے باہر آ کے اچھا فیصلہ کیا اب تھوڑا آگے آ جاٶ فلاں ہوٹل تک۔۔۔

میں وہاں پہنچتی تو سکندر نے میرے پاس آ کے باٸیک روکی آج وہ باٸیک پہ تھا اور ہیلمٹ پہن رکھا تھا۔۔
بیٹھو سدرہ میں نے آواز پہچان لی اور باٸیک پہ بیٹھ گٸی۔۔۔۔

آج وہ مجھے ایک دوست کے گھر لایا تھا بقول اُس کے اُس کے دوست کے امی ابو گھر پہ نہیں ہیں۔

جب ہم روم میں پہنچے تو میں رو پڑی۔۔۔
سکندر میں نے کیا بگاڑا تھا تمہارا میں نے تو محبت کی تھی تم سے  اُس کا صلہ تم مجھے یہ دے رہے ہو۔۔

ہاہاہاہاہا میں نے بھی تم سے بہت محبت کی تھی ویڈیو میں دیکھ لینا تھا  کتنی محبت کر رہا ہوں تم سے 
تمہارا پورا جسم چوم رہا ہوں۔۔۔

سکندر نے قہقہہ لگایا 

میں مر جاٶ گی پلیز ایسا مت کرو میں بہت محبت کرتی ہوں تم سے میں نے ہاتھ جوڑ دیٸے۔۔
ارے ارے تم نہیں مرو گی نہ میں تمہیں مرنے دوں گا اگر تم مر گٸی تو میں اتنا پیار کس سے کروں گا۔۔۔

تمہارے جسم نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے یہ کہتے ہوٸے سکندر نے مجھے اٹھا کہ بیڈ پہ ڈال دیا۔۔

اب میں نے ہچکیاں لے لے کے رونا شروع کر دیا تم تو کہتے تھے کہ میں نکاح کروں گا رشتہ بھی مانگا تھا میرا میں نے روتے ہوٸے کہا۔۔

ہاہاہاہاہاہا نکاح وہ بھی تجھ جیسی سے جو اپنے ماں باپ کو دھوکہ دے کے مجھے ملنے آ گٸی میرے ساتھ سو لیا 
سدرہ جان جو آج مجھے ملنے آ سکتی ہے ماں باپ کو دھوکہ دے کے۔۔۔۔

وہ کسی کو بھی ملنے جا سکتی ہے کل مجھے دھوکہ دے کے اور ویسے بھی میں نکاح کے حق میں نہیں بس انجوٸے کرتا ہوں۔۔۔۔

سکندر کی باتوں نے مجھے اندر سے چھلنی کر دیا تھا اب میرے آنسو رک گٸے تھے اور جسم مردہ لگ رہا تھا

سکندر نے ایک  کیمرہ بیگ سے نکالا اور اسے سٹینڈ پہ لگا کے مجھ پہ سیٹ کر دیا۔۔
سکندر یہ کیا ہے تم نے تو کہا تھا کہ میں ملنے آٸی تو تم میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دوگے۔۔۔

لیکن تم تو اور بنا رہے ہو میں نے بیڈ سے اترتے ہوٸے کہا۔۔۔
سکندر نے ایک زور کا تھپڑ میرے منہ مارا اور دوبارہ دھکا دے کے بیڈ پہ گرا دیا۔۔۔

کپڑے آرام سے اتار لو سدرہ ڈارلنگ کیونکہ تمہیں گھر بھی جانا ہے اگر میں اتاروں گا تو پھٹ جاٸیں گے۔۔۔ 

سکندر  مجھ پہ بھوکے بھیڑیے کی  طرح ٹوٹ پڑا اور ایک گھنٹہ نوچتا رہا میں درد اور دکھ سے روتی رہی زیادہ درد اس بات کا تھا کہ میں محبت کے نام پہ لٹی تھی۔۔۔۔

اور آج مجھے بہت پہلے پڑھی ہوٸی بات کا مطلب سمجھ آ رہا تھا کہ عورت سب سے سستی محبت کے نام پہ بکتی ہے۔۔۔

سکندر جب اپنی ہوس پوری کر چکا تو اُس نے اپنے دوست کو بھی کمرے میں بلا لیا اور مجھے کہا کہ اِس کے بھی بہت ارمان ہیں پورے کر دو یہ کہتا ہوا سکندر چیٸر پہ بیٹھ گیا اور اُس کے دوست نے آگے بڑھ کے مجھے دبوچ لیا۔۔۔

میں لٹ چکی تھی مجھے خود سے بھی گھن آ رہی تھی۔۔۔

پتہ ہی نہ چلا کہ کب سکندر نے مجھے یونیورسٹی اتارا اور کب میں روم میں آگٸی۔۔۔
موباٸل آن کیا تو ساتھ ہی بھاٸی کی کال آ گٸی جسم خوف سے لرز گیا ..
کانپتی آواز میں کال پک کی تو بھاٸی نے کہا کہ کب سے نمبر ٹراٸی کر رہاہوں بند کیوں تھا۔۔۔؟؟؟

اور میرے جواب سے پہلے ہی بتایا کہ میں پانچ بجے آٶں گا گاڑی میں کرنٹ کا مسئلہ ہے ٹھیک کروا رہا ہوں۔۔۔

کال بند کر کے میں نے بیگ سے ایک سوٹ نکالا اور واش روم میں چلی گٸی 
نہا کے آٸی اور جاٸے نماز بچھا کے روتے ہوٸے رب کے حضور سجدہ ریز ہو گٸی  .......
اب وہی ایک ذات تھی جو مجھے بچا سکتی تھی ۔۔۔۔

   22
1 Comments

I-R-S

28-Feb-2023 01:09 AM

بہت اچھی کہانی .. اگلے حصے کا انتظار رہے گا ..

Reply